میرے اندر ۱ شور ہے شائد
تو ابھی کوئی اور ہے شائد
جسمیں تو میرا ہوتا تھا ہاں
گزر چوکا وہ دور ہے شائد
اور وفا کیا کریں
اور دعا کیا کریں
تو نہیں ہے باہوں میں
یہ سرد ہوا کیا کریں
کیا کمی تھی میرے عشق میں
فقیر ہوگیے تیرے عشق میں
فقیر ہوگیے تیرے عشق میں
ہائے فقیر ہوگیے تیرے عشق میں
تیری گلی کو چھوڑ کے
کہیں اور سے جانا سیکھ لیا
حس رہے ہیں آج کل
اب درد چھپانا سیکھ لیا
کیا کریں ان آنکھوں کا
جنکو تو دکھا نہیں
قسمتوں کا کیا کریں
جنمیں تو لکھا نہیں
کیوں ہوئے نا سویرے عشق میں
فقیر ہوگیے تیرے عشق میں
فقیر ہوگیے تیرے عشق میں
ہائے فقیر ہوگیے تیرے عشق میں
خوش رہتے ہیں وہ خود سے ہی
فقیروں کو جنتوں کے ارمان نہیں دیتے
نبھانے کا سلیقہ کوئی انسے سیکھے
لوگ دل تو دیتے ہیں
پر جان نہیں دیتے۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.