پھولوں کی لاشوں میں
تازگی چاہتا ہے
پھولوں کی لاشوں میں
تازگی چاہتا ہے
آدمی بھوتیا ہے
کچھ بھی چاہتا ہے
پھولوں کی لاشوں میں
زندہ ہے تو آسمان میں
اڑنے کی ضد ہے
او مر جائے تو
مر جائے تو سڑنے کو
زمین چاہتا ہے
آدمی بھوتیا ہے
ٹانگ کے بستہ اٹھا کے تنبو
جائے دور پہاڑیوں میں
وہاں بھی ڈجے دارو مستی
چاہے شہر اجاڈوں میں
پھر شہر بلایے اسکو تو
جاتا ہے چھوڑ تباہی پیچھے
قدرت کو کر داغدار سا
چھوڑ کے اپنی سیاہی پیچھے
چھوڑ کے اپنی سیاہی پیچھے
اور وہی بندہ
پھر سے وہی ہریالی چاہتا ہے
آدمی بھوتیا ہے
پھولوں کی لاشوں میں
تازگی چاہتا ہے
پھولوں کی لاشوں میں
تازگی چاہتا ہے
آدمی بھوتیا ہے
کچھ بھی چاہتا ہے
پھولوں کی لاشوں میں۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.