آج کی رات
آج کی رات ساز ای درد نا چھید
قال الفت کا جو
ہنستے ہوے تاروں نے سنا
بینڈ کلیوں نے سننا
مست بہروں نے سنا
سب سے چپ کر جیسے دوں
پریم کے مروں نے سنا
خواب کی بات سمجھ
اس کو حقیقت نا بنا
آج کی رات ساجے
دل ای پردد نا چیر
آج کی رات
اب ہیں ارمانوں پے
چھایے ہوے بادل کالے
پھوٹ کر رسنے لگے ہیں
میرے دل کے چلیانکھ بھر آئی
چلکنے کو ہیں اب یہ پیالہ
مسکرائینگے
میرے ہال پے دنیا والے
آج کی رات ساز ای
درد نا چھید
آج کی رات
بیبسوں پر یہ ستم
خوب زمانے نے کیا
کھیل کھیلا تھا
محبت کا ادھورا ہی رہا
ہائے تقدیر کی
تقدیر سے پورا نا ہوا
ایسے آنی تی جڑی
مجھے معلوم نا تھا
آج کی رات ساجے دل ای
پردد نا چھید
آج کی رات۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.