نہیں سمجھی رے تو ایک سیدھا سوال
سمجھتا ہو میں تجھے دیکر مثال
ہے بات تھی یار ایک بیر کی
بد کے ہو گئی سوا شیر کی
ارے بد کے ہو گئی سوا شیر کی
بات تھی یار ایک بیر کی
بد کے ہو گئی سوا سیر کی
ارے بد کے ہو گئی سوا شیر کی
جیسے کری سے عام بن بڑھنے کے بد
جیسے بڑھتی ہیں گیند ہوا بھرنے کے بد
جیسے ایک بوند اٹھے لیے موزو کی شان
جیسے ایک بلبلا بڑے گمبد سمن
جیسے نکلے ہیں بیمب کوئی دھرتی کو فود
جیسے جوالامکھی اٹھے پروت کو توڑ
جیسے آنچل تلے جلے دو دو مثل
جیسے بادل کے بیچ دو دو چندا کے تھل
ارے، جیسے جیسے چھوٹی دلہن
نہیں ڈولی سمائے
ویسے گوری کا انگ نہیں چولی سمائے
ہے بات تھی یار ایک بیر کباد کے ہو گئی سوا شیر کی
ہا بد کے ہو گئی سوا شیر کی
ہیں تیرہ پاس کیا یہ میرے دل سے پچھ
میرے دل سے نہیں ساری محفل سے پچھ
یہ جو انگڑایا لیکے طوفا اٹھا
آئے ارے انسا تو کیا دیوتا ڈول جائے
گھباراو نہیں زارا سمجھو حضور
یہ ہیں مولا کی دیں یہ ہیں ڈاٹا کا نور
پڑے ان پے نہیں بری نظروں کی دھول
یہ ہیں پوجا کے پھل، یہ ہیں مندر کے پھول
ارے ڈالی او ڈالی تن کی تیرہ گلپھسا ہو گئی
اری او باواری تو جاوا ہو گئی
بات سمجھنے مے بڑی دیر کی
بد کے ہو گئی سوا شیر کی
ارے بات سمجھنے مے بڑی دیر کی
بد کے ہو گئی سوا شیر کی
یہ بات تھی یار ایک بیر کی
بد کے ہو گئی سوا شیر کی
ارے بد کے ہو گئی سوا شیر کی، ہا۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.