برسات کے دن آئے
ملاقات کے دن آئے
بےتابیوں کے
شرارے بیتچے ہیں
یہ ساون کی
رمجھم جھڑی ہیں
قدم بیکھدی میں
بہکنے لگے ہیں
یہ مدہوشیوں
کی گھڑی ہیں
برسات کے دن آئے
ملاقات کے دن آئے
ہم سوچ میں دھ جنکے
اس رات کے دن آئے
برسات کے دن آئے
برسات کے دن آئے
جلتے رہے ہم خیالوں کے
لو سے صحیح ہمنے برسو جدائی
چھم چھم برستی سہانی
گھٹا نے عجب سی اگن ہیں لگائی
برسات کے دن آئے
ملاقات کے دن آئے
ہم سوچ میں دھ جنکے
اس رات کے دن آئے
برسات کے دن آئے
برسات کے دن آئے
نا تم ہوش میں ہو
نا ہم ہوش میں ہیں
بہک جائے نا
تم سمبھالو ہمیں
گجریش یہی ہیں تامناؤ کسنم بازؤں میں تھا لو ہمیں
جسبات کے دن آئے
ملاقات کے دن آئے
ہم سوچ میں دھ
جنکے اس رات کے دن آئے
برسات کے دن آئے
برسات کے دن آئے
دیوانی دیوانی
جوانی مستانی
گرم سانسوں
میں طوفان ہیں
دیوانا دیوانا
سما ہیں دیوانا
ذرا سی چاہت بھی
بیئمان ہیں
دھوا سا اٹھے ہیں
کہی جسم سے
کہو بادلو سے
براستے رہے
سہا جائے نا یہ
جدائی کا گھوم
بھلا کب تلک
ہم تراستے رہے
برات کے دن آئے
ملاقات کے دن آئے
ہم سوچ میں دھ جنکے
اس رات کے دن آئے
برسات کے دن آئے
برسات کے دن آئے
برسات کے دن آئے۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.