کس لمحے نے تھامی انگلی میری
پھسلیک مجھ کو لے چلا
ننگے پاؤں دوڑی آنکھے میری
خوابوں کی ساری بستیاں
ہر دوریاں ہر فاصلیں قریب ہیں
اس عمر کی بھی شکشیت عجیب ہیں
جھنی جھنی ان سانسوں سے
پہچانی سی آوازوں میں
گونجے آج آسمان
کیسے ہم بےزبان
اس جینے میں کہی ہم بھی دھ
دھ زیادہ یا زارا کم ہی تیرک کے چل پڑے مگر
راستے سب بےزبان
جینے کی یہ کیسی عادت لگی
بےمتلب قرض چڈ گئے
حادثو سے بچ کے جاتے کہا
سب روتے ہستے سیہ گئے
اب گلتیاں جو من لے تو ٹھیک ہیں
کمجوریو کو مات دے تو ٹھیک ہیں
جھنی جھنی ان سانسوں سے
پہچانی سی آوازوں میں
گونجے آج آسمان
کیسے ہم بےزبان۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.