بجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں
مہبتو کے دیے جلا کے
میری وفا نے اجاڑ دی ہیں
امید کی بستیاں بسا کے
تجھے بھولا دیںگے اپنے دل سے
یہ فیصلہ تو کیا ہیں لیکن
نا دل کو معلوم ہیں نا ہم کو
نا دل کو معلوم ہیں نا ہم کو
جیینگے کیسے تجھے بھولا کے
بجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں
مہبتو کے دیے جلا کے
کبھی ملینگے جو راستے مے
تو منہ پھرا کر پلٹ پڑینگے
کبھی ملینگے جو راستے مے
تو منہ پھرا کر پلٹ پڑینگے
کہی سنینگے جو نام تیرا
کہی سنینگے جو نام تیرا
تو چپ رہیگے نظر جھکا کے
نا سوچنے پر بھی سوچتی ہوں
کے زندگنی مے کیا رہیگا
نا سوچنے پر بھی سوچتی ہوں
کے زندگنی مے کیا رہیگا
تیری تامنا کو بس مے کر کے
تیرہ خیالوں سے دور جاکے
بجھا دیے ہیں خود اپنے ہاتھوں
مہبتو کے دیے جلا کے۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.