دل کی شکایت نظر کے شکوے
ایک زبان اور لاکھ بیا
چھپا سکو نا دکھا سکو
میرے دل کے درد بھی ہوئے جوان
چاند ہنس، تارے چمکے
اور مست ہوا جب اٹھلائی
چپ تھی پھر نا جانے کیوں میں
جانے کیوں میں شرمائی
تیرہ سوا ہیں کون
جو سمجھے کیا
گزری مجھ پر یہا
چھپا سکو
سپنوں مے بھی ہم مل نا سکینند بھی تیرہ ساتھ گئی
ساون آگ لگا کے چل دیا
او رو کے برسات گئی
میں اپنی تقدیر پے روئی
مجھپے ہنس بیدرد جہاں
چھپا سکو
تھوڑے لکھے کو بہت سمجھ لو
نئے نہیں یہ افسانے
دل مجبور بھر آتا ہیں
چھلک اٹھے ہیں پیمنے
خط مے جہاں آنسو ٹپکا ہیں
لکھا ہیں میںنے پیار واہا
چھپا سکو۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.