دن کبھی پانی ہوتا
رات کبھی کشتی ہوتی
شمن ملتی دونوں کو جلکے
شمن الگ کرتی انکو جلکے
جی لیے میںنے حصے بارشوں کے
کھا لیے میںنے دھکے خواہشوں کے
یہاں بھی وہاں بھی دوسرے جہاں بھی
پیار کی آنکھ میں ہار کل جمع بھی
ہر جگہ اڑ چلا
بیخبر یہ پرندہ دل کا
ریشمی چاند پے ٹوٹی کے کانچ پے
تیج سی ساس کی آخری آنچ پے
ہر جگہ اڑ چلا
بیسبر یہ پرندہ دل کا
من کے جیسا خالی ہوتا
آنسو جیسا جعلی ہوتا
مٹی جیسا اپنا ہوتا
صبح جیسا سپنا ہوتا
دن کبھی پانی ہوتا۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.