ایک سمیہ کی بات سنو
یہ بات ہیں بڑی پرانی
میںنے تمہارے راجو
چاچا سے سنی تھی یہ کہانی
ایک شیر تھا ایک شیرنی
انکے دھ تین بچے
تم جیسے وہ شیطان دھ لیکن
لیکن لیکن کیا پاپا
لگتے دھ سبکو اچھے
چھوٹی سی ایک گپھا کے اندر
چھوٹا سا ایک گھر تھا
انکے جیون میں نا
کوئی دکھ نا کوئی در تھا
ماں کے لاڈلے دھ وہ
باپ کو جان سے بھی پیارے
ہنستے گاتے موج اڑاتے
مل کے رہتے دھ سارے
لا لا لا
کیا ہوا پاپا بولو نا
ہونی نے جال بچھایا
واہا ایک شکاری آیا
وہ شیرنی سامنے آئی
اسنے بندوق چلایی
وہ شیرنی گھائل ہو
گئی چلائی تڑپی سو گئی
اسنے پھر آنکھ نا کھولی
سینے میں لگی تھی گولی
لیکن وہ مرتے مرتے یہ
کہہ گئی چلتے چلتے
میرے ساتھی میرے
سجنا ان بچوں
کو پیار سے رکھنا
تم باپ ہو بھول نا
جانا ماں کا بھی
فرض نبھانا
ہے باپ بھلا کیا
جانے ماں کیا ہوتی ہیں
بچوں کے سنگ کیسے
ہنستی کیسے روٹی ہیں
اسنے بھی یوں ہنسنا
رونا سیکھ لیابچوں کے سنگ
جاگنا سونا سیکھ لیا
سمیہ رکا پھر دھیرے
دھیرے چلنے لگا
من کا گھاو دھیرے
دھیرے بھرنے لگا
باپ کی انگلی تھام کے
بچے چلنے لگے
من کے بدلے باپ کی
گود میں پلنے لگے
سال مہینے موسم
آنے جانے لگے
شیر کے بچے پھر
سے ہنسنے گانے لگے
باقی کہانی کل چلو
بچوں ابھی سو جاؤ
اوہ نہیں پاپا نہیں
پاپا پلیس
ابھی سناؤ نا پاپا
پلیس ابھی ابھی
اچھا بابا تو سنو
او راہل او روہت او رانی
سنو آگے اب یہ کہانی
پڑا انپے پھر گم کا سایا
واہا ایک ببر شیر آیا
وہ گرایا چنگادا ایسے
کے کھا جائیگا سبکو جیسے
وہ بچے تو بس در کے
بھاگے مگر آ گیا باپ آگے
شرو ہو گیا ایک دنگل
لگا کانپنے سارا جنگل
درکتو پے جا بیٹھے بندر
چھپے ساپ بھی بل کے اندر
کہیں اڑ گئے سب کبوتر
چڑھے بھالو پرابت کے اوپر
لگے بھاگنے در کے ہاتھی
نا تھا شیر کا کوئی ساتھی
ہوئی خوب جم کے لڑائی
ببر نے بہت مار کھائی
تو بچوں نے تالی بجائی۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.