اتنے مگرور دلوار ہیں دیکھو
رگوں میں انکی ہیں دگبجی
جان لے کر کے عاشق کی اپنے
پھر بھی ہوتے نہیں ہیں یہ راضی
حسن والے فریبی حسن والے
حسن والے فریبی حسن والے
حسن والے فریبی حسن والے
ہو انکی زلفیں فریبی، اسکے گزریں فریبی
اسکی جھمکی فریبی، اسکی بندیا فریبی
ضعلیم آنکھوں سے بچنا ہر اشارہ فریبی
حسن والے فریبی حسن والے
حسن والے فریبی حسن والے
کرکے میٹھی میٹھی باتوں سے دل کو لوٹ تے ہیں
گرا کے بجلیاں پھر ہال ای دل پوچھ تے ہیں
وعدہ ہم دل غیرو سے یہ جوڑ لیتے ہیں
بیچ مخدار دل کی کستی چھوڑ دیتے ہیں
بچ تم رہنا سب سے یہ کہنا
یقین کا کرنا اسکا سوچ لو ورنہ
اسکی صحبت بری اسکی فطرت فریبی
حسن والے فریبی حسن والے
حسن والے فریبی حسن والے
اسکی آمگ قیامت سے کچھ کم نہیں وہ وہ
وار نظروں کا انکی سیدھا دل پے ہوتا ہیں
نام لے لے عاشق نا جاگتا ہیں نا سوتا ہیں
انسے امید مت رکھنا تم وفادری کی
اسکی آدت ہیں شرو سے بیٹھباری کی
جسسے دل جوڑا اسکا دل توڈا
انکی دل آنا جیسے جل کے کھاکھ ہو جانا
اسکی ناسو اعدا کا دکھاوا فریبی
حسن والے فریبی حسن والے
حسن والے فریبی حسن والے۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.