ہوئی یہ ہم سے نادانی
تیری محفل میں جا بیٹھے
زمیں کی کھاک ہوکر
آسمان سے دل لگا بیٹھے
خبر کیا تھی
گلستان ای محبت
میں بھی خطرہ ہیں
جہاں گرتی ہیں بجلی
ہم اسی ڈالی پے جا بیٹھے
ہوا خون ای تامنا اس کا
شکوہ کیا کرے تمسے
نا کچھ سوچا نا کچھ
سمجھا جگر پر تر کھا بیٹھے
نا کیوں اجام ای الفت دیکھ
کر آنسو نکل آئے
جہاں کو لٹنے والے
خود اپنا گھر لوٹا بیٹھے۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.