ایک دکھیا جوانی کی ہیں
بس اتنی کہانی
جی ہو گئی دشمن جوانی
میں ہی جوانی
ہیں اتنی کہانی
دو پیلے پیلے کھیتو میں
آچل کی اڑنے
کاجل کا جھولا آنکھوں میں
بوہے تیر کمنے
وہ گوپیا سے کرتی تھی
بلبل کی نشانے
قسمت نے اسکی ایک نا منی
ہایے ہو گئی دشمن
جوانی میں ہی جوانی
ہیں اتنی کہانی
مجبوریا تھی بےبسی تھی
دل میں گھوم بھی تھا
کے ہو رہی شادی
بوڑھاپے سے ستم یہ تھا
دلہن تھی نئی نویلی
پر رنجو عالم بھی ٹھاکے بوڑھاپے نے چین لی
معصوم جوانی
ہایے ہو گئی دشمن
جوانی میں ہی جوانی
ہیں اتنی کہانی
امیدو کی لاشو کی تھی
ایک سیج بچھی
اور آس میں ڈوبی ہوئی
نظر در پے لگائی
دروازے پے دستک کی سدا
کانو میں آئی
سنتے ہی جان کاپ اتی
اور آنکھے تھرائے
اور آنکھے تھرائے
سوچا اسنے لوٹ چلی ہیں
اب تو یہ عصمت میری
سوچا پھر وہ اٹھ کھڑی
کے ہیں یہی قسمت میری
میہندی رنج ہاتھو سے
اسنے لیا اندر سما
چر کر سینہ دیا
اسنے کلیجا یو نکل۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.