کب کب کب
پگھلیگی برف کی ندی
لمحے اترے اس میں جیسے
پگھلے پانی
لہروں میں تایرونگی
پیرو میں کی مٹی
ٹھنڈے سے کندھو پے
راکھی یاد کی انگتھے
کب کب کب
پگھلیگی برف کی ندی
لمحے اترے اس میں جیسے
پگھلے پانی
سب بہتے رہیں
کوئی دیکھیگا نا تجھے
جائے سارے بھاڈ میں
وہ دیکھیں تو بات ہیں
تب تب تب
جاگیگی برف کی ندی
راتوں کے ہاتھو میں
میںنے لکھی کہانی
ہیں توڈا سا ڈرا سا
وہ آنکھیں چرا رہا
ٹیبل پے اکیلے
وہ انگلی گھما رہا
جب جب جب
ابلینگی برف کی ندی
آنکھوں میں سمبھالے رکھا
نظر پانی
اڑتی سی خبر ہیں
کچھ ہوگا اب یہا
چھت پے بھی ہیں جا رہیں
دھیمے سے ناگرک
کاک دبے سے ہوٹھوں سے
پینا رات ذرا ذرا
پییگی تم اگر
نشہ اسکو ہوگا تیرا
ہلے سے روٹھ کے
درواجا ستانا ہیں نا
سبہو تو سانسے
بجے نا زور سے
جب چوری سے وہ دیکھیں
تجھے آدھی نیند میں
اب اب اب
چھپیکے سے برف کی ندی
اسپے تو گور کرے نا کا سفر
اسپے تو گور کرے نا کا سفر
اسپے تو گور کرے نا کا سفر۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.