کھل کے مسکرالے تو درد کو شرمانے دے
بوندو کو دھرتی پر ساج ایک بجانے دے
ہوائے کہہ رہی ہیں، آجا جھولے ذرا
گگن کے گل کو جاکے چھلے ذرا
اتار گھام کے موجے، جمیں کو گنگنانے دے
کنکرو کو تلوو مے گدگدی مچانے دے
کھل کے مسکرالے ساج ایک بجانے دے
جھیل ایک عادت ہیں، تجھمے ہی توہ رہتے ہےاور ندی شرارت ہیں، تیرہ سنگ بہتے ہیں
ہر لہر یہ کہتے ہیں، خود کو جھوم جانے دے
زندگی کو آج نیا گیت کوئی گانے دے
کھل کے مسکرالے ساج ایک بجانے دے
بانسری کی کھڑکیو پے سر یہ کیوں تتکتے ہیں
آنکھ کے سمندر کیوں بےوجہ چلکتے ہیں
تتلیا یہ کہتے ہیں اب بسنت آنے دے
جنگلوں کے موسم کو بستیوں مے چھانے دے
کھل کے مسکرالے ساج ایک بجانے دے۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.