کچھ شیر سنتا ہوں میں
کچھ شیر سنتا ہوں میں
جو تجھسے مخاطب ہیں
ایک حسن پری دل میں ہیں
یہ انسے مخاطب ہیں
ایک حسن پری دل میں ہیں
یہ انسے مخاطب ہیں
سیکھی ہیں تمسے پھول نے
ہنسنے کی ہر ادا
سیکھی ہوا نے تمسے ہی
چلنے کی ہر ادا
آئینہ تمکو دیکھ کے
حیران ہو گیا
ایک بےزبان تمسے
پشیمان ہو گیا
کتنی بھی تعریف کروں
رکتی نہیں زبان
رکتی نہیں زبان
کچھ شیر سنتا ہوں میں
جو تجھسے مخاطب ہیں
ایک حسن پری دل میں ہیں
یہ انسے مخاطب ہیں
ایک حسن پری دل میں ہیں
یہ انسے مخاطب ہیں
ہاتھوں کا لوچ رس بھاری
شاخوں کی داستان
نازک ہتھیلیوں پے وہ
میہندی کا گلسطان
پڑ جائے تمپے دھوپ ٹاسانولائے گورا تن
مخمل پے تم چلو تو
چھلیں پاؤں گلبدن
کتنی بھی تعریف کروں
رکتی نہیں زبان
رکتی نہیں زبان
کچھ شیر سنتا ہوں میں
جو تجھسے مخاطب ہیں
ایک حسن پری دل میں ہیں
یہ انسے مخاطب ہیں
ایک حسن پری دل میں ہیں
یہ انسے مخاطب ہیں
آنکھیں اگر جھکیں تو
محبت مچل اٹھیں
نظریں اگر اٹھیں تو
قیامت مچل اٹھے
اندازہ میں حضور کا
سانی نہیں کوئی
دونوں جہاں میں ایسی
جوانی نہیں کوئی
کتنی بھی تعریف کروں
رکتی نہیں زبان
رکتی نہیں زبان
کچھ شیر سنتا ہوں میں
جو تجھسے مخاطب ہیں
ایک حسن پری دل میں ہیں
یہ انسے مخاطب ہیں
ایک حسن پری دل میں ہیں
یہ انسے مخاطب ہیں۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.