کیا رات سہانی ہیں، کیا رات سہانی ہیں
آج زمانے کی ہر شائی پے جوانی ہیں
انمول نشانی ہیں، انمول نشانی ہیں
تو میری الفت کے خوابوں کی جوانی ہیں
کچھ کہہ دو نگاہوں میں، کچھ کہہ دو نگاہوں میں
آج سیمٹ آؤ ترسی ہوئی باہوں میں
کچھ کہہ دو نگاہوں میں
حسرت ہیں نگاہوں میں، حسرت ہیں نگاہوں مینڈور کہیں چل دوں چھپ کر تیری باہوں میں
تقدیر سنبھال جائے، تقدیر سنبھال جائے
گر میرے سینے پر یہ زلف مچل جائے
یہ رات نا ڈھال جائے، یہ رات نا ڈھال جائے
صبح کے تارے کی نیت نا بادل جائے
کیا رات سہانی ہیں، کیا رات سہانی ہیں
آج زمانے کی ہر شائی پے جوانی ہیں
کیا رات سہانی ہیں۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.