لڑکا میں غریب کا
دل کا ہوں امیر
خون سے لکھتا ہوں
میں دنیا کی تقدیر
اسی لیے تو کہتے ہیں
اسی لیے تو کہتے ہیں
سب مجھکو شورویر
لڑکا میں غریب کا
دل کا ہوں امیر
خون سے لکھتا ہوں
میں دنیا کی تقدیر
وہ دل ہی کیا جیسا میں
کوئی طوفان نہیں
وہ دل ہی کیا جیسا میں
کوئی طوفان نہیں
گیرت جو اپنی بیچ
دے اسان ہی نہیں
پھرتا ہوں اپنے سر سے
بادھے ہوئے کفن
توڑ دیتا ہوں نگاہوں سے
میں لوہے کی زنجیر
اسی لیے تو کہتے ہیں
اسی لیے تو کہتے ہیں
سب مجھکو شورویر
لڑکا میں غریب کا
دل کا ہوں امیر
خون سے لکھتا ہوں
میں دنیا کی تقدیر
دنیا میں مت
کسی کی بھی پوجی چرا کے جیکچھ کام کر دیوانے
پسینہ بہا کے جی
کچھ کام کر دیوانے
پسینہ بہا کے جی
سکھ لے مجھسے دنیا
میں تو جینے کی ادا
راجاؤ کی شان ہیں
لیکن لگتا ہوں فقیر
اسی لیے تو کہتے ہیں
اسی لیے تو کہتے ہیں
سب مجھکو شورویر
لڑکا میں غریب کا
دل کا ہوں امیر
خون سے لکھتا ہوں
میں دنیا کی تقدیر
لکھا ہیں کیا نصیب
میں کسکو یہ پتا
قسمت پے اپنی جسنے
بھروسہ کیا میرا
قسمت بنانے والے نے
یہ بھی تو ہیں کہا
دو روٹی کے واسطے
گھرتی کا سینہ چر
اسی لیے تو کہتے ہیں
اسی لیے تو کہتے ہیں
سب مجھکو شورویر
لڑکا میں غریب کا
دل کا ہوں امیر
خون سے لکھتا ہوں
میں دنیا کی تقدیر۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.