اب رنج سے خوشی سے
بہار او پھجا سے کیا
اب رنج سے خوشی سے
بہار او پھجا سے کیا
میہو ای خیال یار
ہوں ہم کو جہاں سے کیا
میہو ای خیال یار
ہوں ہم کو جہاں سے کیا
ان کا خیال ان کی
تالاب ان کی آرزو
ان کا خیال ان کی
تالاب ان کی آرزو
جس دل میں وہ ہو وہ
مانگے کسی مہربان سے کیا
میہو ای خیال یار ہوں
ہم نے چراغ رکھ
دیا طوفان کے سامنے
ہم نے چراغ رکھڑیا طوفان کے سامنے
پیچھے ہٹیگا عشق کسی
امتیہان سے کیا
میہو ای خیال یار ہوں
کوئی چلے چلے نا
چلے ہم تو چل پڑے
کوئی چلے چلے نا
چلے ہم تو چل پڑے
منزل کی جس کو دھن ہو
اسے کاروان سے کیا
منزل کی جس کو دھن ہو
یہ بات سوچنے کی ہیں
وہ ہو کے مہربان
یہ بات سوچنے کی ہیں
وہ ہو کے مہربان
پوچھینگے ہال ای دل تو
کہیںگے زبان سے کیا
میہو ای خیال یار ہوں۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.