راتوں کے جاگی صبح ملے ہیں
ریشم کے دھاگے یہ سلسلے ہیں
لازمی سی لگنے لگی ہیں
دو دلوں کی اب نزدیکیاں
ہم دکھتی نہیں پر ہو رہی ہیں نزدیکیاں
دو دل ہی جانے لگتی ہیں کتنی محفوظ نزدیکیاں
جریا ہیں یہ آنکھیں جریا
چھلکتا ہیں جنسے ایک ارمانوں کا دریا
عادتیں ہیں انکی پرانی
انکہی سی کہہ دے کہانی
پرچھائیاں دو جڑنے لگی ہیں
دیکھو ہوا میں اڑنے لگی ہیں
پنکھ جیسی لگنے لگی ہیں
دو دلوں کی اب نزدیکیاں۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.