سو برس گزرے رات ہوئے
سو برس گزرے دن ہوئے
سو برس گزرے چاند دکھے
سو برس گزرے بن جیے
کیوں پل تیہرتا ہیں یہ
کیوں وقت بدلتا نہیں ہیں
یہ راہ سونی ہیں کیوں
کیوں کوئی نکلتا نہیں ہیں
سو برس گزرے سانس لیے
سو برس گزرے بن جیے
پلکیں ہیں خوابوں سے خالی
دل ہیں کے بندھ کوئی گھر
کبھی رنگ تے نینوں میں
کبھی دل کو لگتے تے پر
وہ راہ سہیلی میری
سب تارے چرا لے گئی ہیووہ دل جو تھا میرا
اب وہ بھی میرا نہیں ہیں
ہیں خفا مجھسے یار میرے
کیا پتا کب یہ پھر ملے
ہم توہ چرگھوں سے جلکے
بیٹھے ہیں امید میں
کیا جانے یہ کس کا
رہے انتظار ہمے
کوئی چو لے مجھے
کیوں آخر یہ لگتا ہیں دل کو
سانسیں بندھ ہیں توہ کیا
اب بھی دھڑکتا ہیں دل توہ
یہ تڑپ کوئی نا سنیں
نا سماج یوںہی دل ہیں یہ
سو برس گزرے رات ہوئے
سو برس گزرے دن ہوئے
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.