بیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا
کسکی اولاد ہیں
تو اتنی خبر ہیں کے نہیں
آج بھی قدموں میں
تیرہ یہ جھکی جائے زمین
کیونکے یہ تیری ہیں
ہر ذرہ ہیں اسکا تیرا
بیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا
بلبلیں آج بھہی باغوں
میں یہی گاتی ہیں
ہایے کیا شان ٹھی
نوابوں کی دہراتی ہیں
سن کے جو پھول کھلا
جھوم کے یہ کہنے لگا
بیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا
جنگ میں مرزا قلندر
علی کھان کا جانا
قہر برسانا تھا
دشمن پے قیامت دھانا
ہایے وہ جوش نوابوں کی
رگوں میں نا رہا
بیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا
راجپوتوں کی شجات کی
کہانی سن لے
کون ٹھے تیرہ بڑے
میری زبانی سن لے
انکی اولاد سے مجھ کو ہیں
بس اتنا شقوابیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا
کون راجپوت کا جایا
کبھی مدہوش ہوا
جاگ او اوننچے نشان
والے تو بےہوش ہوا
اڑ گئی سونے کی چڑیا
رہا خالی پنجرا
بیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا
پھوٹ آپس میں
پڑی گھر تیرا برباد ہوا
تیری بربادی پے
دشمن تیرا آباد ہوا
ہوش کر اب تو گلی
بھائی کے بھائی لگ جا
بیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا
مجھے دن رات لگی
تیرہ جگانے کی ہیں دھن
مادر-ای-ہند کے لادوں
پلے کچھ میری بھی سن
تیج-رفتار زمانے سے
قدم اٹھ کے ملا
بیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا
آج ہر ملک کے سوئے
ہوئے بیدار ہوئے
ٹفل جو گھٹنوں کے بال
چلتے ٹھے ہشیار ہوئے
مگر او نیند کے
متوالے تو سویا ہی رہا
بیخبر جاگ ذرا
بیخبر جاگ ذرا۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.