دنیا میں جینے کا مجھے شوق تھا
کھانے اور پین کا مجھے شوق تھا
دنیا میں جینے کا مجھے شوق تھا
کھانے اور پین کا مجھے شوق تھا
مرنا بھلا کسکو منظور تھا
لیکن میں ای دوست مجبور تھا
گوری حکومت تھی کالے غلام
خط چھوڑکے بادشاہوں کے نام
میں کھدکاشی کر گیا
میں اس طرح مار گیا
میں کھدکاشی کر گیا
میں اس طرح مار گیا
کمزور تھا اب میں مضبوط ہو
تب آدمی تھا میں اب بھوٹ ہو
سب گھر سے چلتے دھ جھنڈے لیے
گرتے سمبھلتے سے جھنڈے لیے
اف دیش بھاگتو کی وہ ٹولیا
سینے پے جنکے لگی گولیا
میں موٹ سے در گیامیں اس طرح مار گیا
وہ سایے غلامی سے بھی ہیں بری
کہتی ہیں دنیا جیسے مفلی سی
گھر مے ضرورت کی چیزے نا تھی
پتلونے تھی تو کمیجے نا تھی
ہر فرض ہر قرض کو چھوڑ کر
دریا پے میں آ گیا دھوڑ کر
دنیا سے دل بھر گیا
میں ڈوب کر مار گیا
دنیا سے دل بھر گیا
میں ڈوب کر مار گیا
اس گھام سے چھتی میری پھٹ گئی
یہ تنگ بھی جنگ مے کٹ گئی
ماں کا بہت ہی دلارا تھا میں
بھائی بہن کا بھی پیارا تھا میں
پر پیٹ بھرتے نہیں پیار سے
نکلا میں کچھ لےنے بازار سے
تو واپس نا میں گھر گیا
میں ڈوب کر مار گیا۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.