ہم نے سنا تھا
ایک ہیں بھارت
سب ملکوں سے
نیک ہیں بھارت
لیکن جب نزدیک سے دیکھا
سوچ سمجھ کر ٹھیک سے دیکھا
ہم نے نقشے اور ہی پایے
بدلے ہوئے سب طور ہی پایے
ایک سے ایک کی بات جدا ہیں
دھرما جدا ہیں ذات جدا ہیں
آپ نے جو کچھ ہم کو پڑھایا
وہ تو کہیں بھی نظر نا آیا
جو کچھ میں نے تم کو پڑھایا
اس مے کچھ بھی جھوٹ نہیں
آشا سے بھاشا نا ملے تو
اس کا مطلب پھوٹ نہیں
ایک ڈالی پر رہ کر جیسے
پھول جدا ہیں پات جدا
برا نہیں گر یوں ہی وطن میں
دھرم جدا ہو ذات جدا
اپنے وطن میں
وہی ہیں جب قران کا کہنا
جو ہیں وید پران کا کہنا
پھر یہ شور شرابا کیوں ہیں
اتنا خون خرابا کیوں ہیں
اپنے وطن میں
صدیوں تک اس دیش میں بچوں
رہی حکومت غیروں کی
ابھی تلک ہم سب کے منہ پر
دھول ہیں ان کے پیروں کی
لڑواؤ اور راج کرویہ ان لوگوں کی ہکمت ٹھی
ان لوگوں کی چال میں آنا
ہم لوگوں کی ذلت ٹھی
یہ جو بیر ہیں ایک دوجے سے
یہ جو پھوٹو اور رنجش ہیں
انہیں ودیشی آکاؤں کی
سوچی سمجھی بخشیش ہیں
اپنے وطن میں
کچھ انسان براہمن کیوں ہیں
کچھ انسان ہریجن کیوں ہیں
ایک کی اتنی اعزت کیوں ہیں
ایک کی اتنی ذلت کیوں ہیں
دھن اور گیان کو
طاقت والوں نے اپنی جاگیر کہا
محنت اور غلامی کو
کمزوروں کی تقدیر کہا
انسانوں کا یہ بتوارا
ویہشت اور جہالت ہیں
جو نفرت کی شکشا دے
وہ دھرما نہیں ہیں لعنت ہیں
جنم سے کوئی نیچ نہیں ہیں
جنم سے کوئی مہاں نہیں
کرم سے بڑھ کر کسی مانننشیہ کی
کوئی بھی پہچان نہیں
اب تو دیش میں آزادی ہیں
اب کیوں جانتا پھریادی ہیں
کب جائیگا دور پرانا
کب آییگا نیا زمانہ
صدیوں کی بھوکھ اور بےکاری
کیا ایک دن میں جائیگی
اس اجڑے گلشن پر رنگت
آتے آتے آییگی۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.