ایک سمیہ تھا جب کی دیوتا
سارے تمسے ڈرتے دھ
بجلی پہرا دیتی تھی
اور بادل پانی بھرتے دھ
اور آج
جیسے آنکھوں سے آسو
جیسے آنکھوں سے آسو
ایسے نکلے ہو تم
خوشیوں کا چمن لوٹا کر
کس اور چلے ہو تم
جیسے آنکھوں سے آسو
میہلو کی دہلی جھوٹھی
پھولوں کی وینی ٹوٹی
راجہ سے رنک بنے ہو
پھر بھی سبکے اپنے ہو
روتے سارے پرواسی
روٹی ہیں ایک ایک داسی
اترے سبکے چہرے ہیں
سبکے ہی نین بھرے ہیں
کوئی بھی کیا بدلیگا
جتنے بدلے ہو تم
کھسیو کا چمن لوٹا کر
کس اور چلے ہو تم
جیسے آنکھوں سے آسو
تم ستیہ ویر تم دانی
ہے دھنی ہوئی کربنی
گم کی گاٹھری کاندھے پر
اور دھرم کی لاٹھی لیکر
تم دھکھ میں ہاسنا سیکھے
کیا کہنے اس مستی کے
جنکو آگے بڑھنا ہیہار سنکٹ سے لڑنا ہیں
اندھیارا دھول جائیگا
جتنے اجلے ہو تم
کھسیو کا چمن لوٹا کر
کس اور چلے ہو تم
بہتے آنکھو سے آسو
پھاسٹ ہو کبھی دلدل میں
یا پھر ندیا کے جل میں
چبھتے کٹے پاوو میں
الجھے ہو کن بھاوو میں
تم ننگے پیروں والے
پڑ گئے ہیں کتنے چھلے
پڑ گئے ہیں کتنے چھلے
اورو کا دکھ اپنے پر
خود اوڑھ چلے ہو تم
خوشیوں کا چمن لوٹا کر
کس اور چلے ہو تم
جیسے آنکھوں سے آسو
سنا پان مار گھاٹ جیسا
ہر پل کوئی اندیشہ
سورج کو تو ڈھالنا ہیں
لیکن تمکو چلنا ہیں
ساگر آواز لگائے
خود لہریں تمہے بلایے
خود لہریں تمہے بلایے
ٹوٹا من گر جاتا ہیں
گر کر سمبھلے ہو تم
خوشیوں کا چمن لوٹا کر
کس اور چلے ہو تم
جیسے آنکھوں سے آسو۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.