کئی صدیوں پہلی
پرانی بات ہیں
کے جب سے آسمان
زمین کا ساتھ ہیں
اور یہ پاگل ہوا۔۔
سنسنتی ہوئی۔۔
ڈھوندی تھی یہاں۔۔
کہاں میرا پیار ہیں۔۔
ایک دن اوپر والا
راجہ سوچ رہا تھا
میں کچھ بناؤ…
پھر اسنے پروت بنائے
سوچا تھوڑی برف بچھا دوں
برف سے جو پگھلے۔۔
پگھل جھرنے جہارے۔۔
کے جھرنوں سے وہی۔۔
کھلکھلتی ندی۔۔
یہ ندیوں سے بنا…
جو ساگر آج ہیں…
کئی صدیوں صدیوں
پرانی بات ہیں…
آب بھی سوچیں اوپر والا
کیسے چلیگا یہ سنسار
کھڑا رہیگا کون زمین پے
کون بنےگا پلنہار
پھر دھرتی کا کیا شرنگار
پیڑ بنائے سندر پہرےدار
دیکھ ک یہ شرنگارہو گیا اسکو پیار
بنا ڈالے جنگل
جنگل ہی جنگل یار
پھر تو لگنے لگے پھل۔۔
پھل پے پکنے لگے پھل
یہ ندیوں کی راونی
پییگا کون پانی
کوئی تو روح ہو…۔
کوئی ہو زندگنی…
کے آب تو بچا کوئی۔۔
کہیں تو مسکرایے۔۔
اسکے تصویر جیسے
پوری ہونے لگی
مگر اسکی تامنا
ادھوری ہی رہی
وہ جادو سے بہارے جو بیج
اسکے پاس دھ
اسنے پھیلا دیے زمین پے
جو انمیں خاص دھ
وہ ایسے پیڑ ہیں
جنمیں بھگوان ہیں
جو دیتے پیار ہیں
جو لیتے پیار ہیں
انہے بچا کوئی
جب جاکر گلی لگائے
جو سپنا دیکھیں وہ
وہ سپنا سچ ہو جائے…
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.