وقت کے سانچے میں
اپنی زندگی کو ڈھال کر
مسکراؤ موت کی
آنکھوں مے آنکھے دال کر
پتھر سے شیشہ ٹکرا کے
پتھر سے شیشہ ٹکرا کے
وہ کہتے ہیں دل ٹوٹے نا
اس دھن کی قیمت کچھ بھی نہیں
جس دھن کو لٹیرا لٹے نا
پتھر سے شیشہ ٹکرا کے
نظروں کا اشارہ دھوکھا تھا
باتوں کا سہرا دھوکھا تھا
باتوں کا سہرا دھوکھا تھا
اب گھام میں دل ڈوبے لیکن
اب گھام میں دل ڈوبے لیکن
منجھدھار سے نتا ٹوٹی نا
پتھر سے شیشہ ٹکرا کے
دو آنکھوں کے ٹکرانے سیفسانے بناتے ہیں لیکن
افسانے بناتے ہیں لیکن
کچھ ایسے فسانے ہیں جنکا
کچھ ایسے فسانے ہیں جنکا
کانٹو سے دامن چھٹے نا
پتھر سے شیشہ ٹکرا کے
بیقراری قرار ہو جائے
جو فضا میں بہار ہو جائے
جسکو کہتے ہیں پیار کا ساگر
جسکو کہتے ہیں پیار کا ساگر
دبنےوالا پار ہو جائے
طوفان میں چلتے رہنا ہیں
شولو میں جلتے رہنا ہیں
شولو میں جلتے رہنا ہیں
وہ منزل کیا جس منزل میں
وہ منزل کیا جس منزل میں
پیروں کے چھالے پھوٹے نا
پتھر سے شیشہ ٹکرا کے
وہ کہتے ہیں دل ٹوٹے نا۔
If you enjoyed using our website, please don't forget to share with your friends.